۱۳۸۸ خرداد ۲۰, چهارشنبه

تظاهرات مردم بلوچ شهر کویته علیه رژیم آخوندی


بلوچ خواتین پینل نے خبردار کیاہے کہ اگر ایران میں بلوچوں کے خلاف تشدد کی کاروائیاں بندنہ ہوئی توپاکستان میں موجود ایرانیوں پر حملے کر کے اس کاجواب دیاجائے گا۔
بلوچ خواتین نے ایران کے شہر زاہدان میں دوہفتے قبل مسجد بم دھماکے بعدتین بلوچوں کوسرعام پھانسی کوبلوچ نسل کشی قراردیدتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ قوم اپنے شہداءکا بدلہ ضرور لے گی۔
بلوچ خواتین پینل اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے زیر اہتمام کوئٹہ پریس کلب سے ایک ریلی نکالی گئی جو مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی میونسپل کارپوریشن کے سبزہ زار پر جلسے کی شکل اختیار کر گئی۔
اس موقع پر بلوچ خواتین پینل کے حانی بلوچ، ماہ رنگ بلوچ، مہر جان بلوچ، بلوچ وطن موومنٹ کے میر قاد ربلوچ، بلوچ دانشور صباءدشتیاری، بی ایس او آزاد کے قمبر چاکر بلوچ و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے ایران میں بلوچوں پرمظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی کہاکہ اگر ایران کی بلوچ کش پالیسیوں کا سلسلہ جاری رہا تو یہاں بلوچستان میں بھی ان کے ایرانی باشندے محفوظ نہیں رہیں گے۔
بلوچ خاتون پینل کے خاتوں رہنماءحانی بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم پھانسیوں سے گھبرانے والی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں بلوچ قوم کواقلیت میں تبدیل کرکے اس کوتشدد کانشانہ بنایاجا رہا ہے۔ بقول حانی بلوچ کہ ہمارے احتجاج کا مقصد پاکستانی یا ایران سے بلوچوں پر ہونے والے مظالم بند کرنے کے مطالبے کے لئے ہرگز نہیں بلکہ ہم عالمی دنیا کو یہ باورکرانا چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم ایرانی و پاکستانی مظالم کی شکار ہے لہٰذا وہ اس کے خلاف اقوام عالم آواز بلند کریں۔
مہرجان بلوچ نے کہا کہ ایران میں بلوچوں کی پھانسیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا حتیٰ کہ بلوچ خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ زاہدان بم دھماکے میں بیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعدایران نے نہ صرف پاکستان سے سخت احتجاج کرتے ہوئے ایرانی سنی تنظیم جندواللہ کے مرکزی رہنماءمالک ریکی کی گرفتاری اور ایران حوالگی کا مطالبہ کیاتھا بلکہ تفتان میں پاکستان کے ساتھ سرحد بھی بندکی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ایران سے ملحقہ بلوچستان نے سرحدی علاقوں میں ایران سے آنے والے ایرانی اشیاءکی کمی واقع ہوئی ہے بلکہ تفتان سرحدپر کام کرنے والے سینکڑوں قلی یابڈوکی ابھی تک بے روزگاری سے دوچار ہیں۔
بی بی سی اردو

هیچ نظری موجود نیست: